Waseem khan

Add To collaction

08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -بدلہ قسط6


 بدلہ 
از مشتاق احمد 
قسط نمبر6

ہم ایسے نہیں مر سکتے۔
 کیا ایسا انجام تھا ہمارا۔ 
اتنی بری موت۔ آہ نہیں۔ 
ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا۔ 
خدا کا حکم ہے نہ امید نہیں ہونا۔
  ہاں ہم آخری سانس تک کوشش کریں گے۔ عثمان نجم سے بول رہا تھا۔  
سارے ساتھی تو مر گئے۔ 
ہم تین ہی بچ گئے ہیں۔
 ہمارا بھی نمبر لگ جائے گا ہم بھی انسان ہو کر انسانوں کی خوراک بن جایں گے۔  
عثمان نہیں مرنا مجہے ایسے ۔
اے خدا معاف کر دے ہمیں۔
 ہم کبھی غلط کام نہیں کریں گے۔ کوئی ذریعہ بنا میرے خدا کوئی سبب بنا دے۔ نجم ہاتھ بلند کر کے خدا کے آگے گڑ گڑا رہا تھا۔ 
سب کی بری حالت تھی۔ 
اب تو بس خدا کی ذات ہی انکو نکال سکتی تھی  خود وہ مجبور تھے۔ 
رات کو لڑکی کھانا لایی۔
 سنو عثمان نے اسکو روکا۔ 
وہ جاتے ھوے کھڑی ہو گئی مڑھی نہیں۔
 ہمیں یہاں سے نکال دو منت ہے۔
 تم کر سکتی ہو سب۔ 
ہمیں تمسے امید ہے۔ کرو گی نہ ہماری مدد؟
 وہ بنا جواب کے چلی گی۔
 عثمان سجدہ میں گر گیا۔
 اگلے دن۔ دو آدمی اے۔
 کیسے ہو تم لوگ؟
 زیادہ مت سوچنا ورنہ ہڈی کھا کر ہمیں کچھ نہیں ملنا۔ 
کل اگلے کی باری ہے تیار رہنا۔
 پھر وہ لوگ چلے گئے۔
 بھوک سے مرتے کیا نہ کرتے اب تو یہ کھانے لگے تھے کھانا۔
 مجبوری کا نام شکریہ ہے۔ 
دن کو وہی لڑکی آیی۔
 عثمان نے اس کی پھر منت کی۔
 وہ پریشان کھڑی تھی عثمان کو دیکھنے میں مگن رہی پھر چلی گئی۔ 
عثمان یہ نہیں کرے گی مدد مجہے لگتا ہے۔
 یہ تو بات تک کا جواب نہیں دیتی۔
وہ اتنے بندے اور یہ ایک عورت۔ 
کیسی امید رکھنی عثمان۔نجم ہمت ہار بیٹھا تھا۔
 کل پھر ہم میں سے ایک جائے گا۔ پتہ نہیں کون۔ 
ڈر کی لہر اس کے جسم میں دوڑی۔ 
اگلے دن چار بندے اے اور بولے تیار ہو تم لوگ۔ 
تینوں چپ تھے ایسے لگتا تھا تینوں میں جان نہ ہو۔ نجم عثمان کے ساتھ چپک کر بیٹھا تھا۔ 
انہوں نے نظر بھر کر دیکھا۔ 
تیسرے کو پکڑ لو۔ 
آج تیسرا بھی جا رہا تھا چیختا چلاتا کون بچاتا اسکو۔ 
خدا نے آزمائش رکھی تھی ابھی بھی۔ 
لے گئے وہ اسکو۔ 
دو دن بس پھر ان دونوں میں سے ایک نے پھر چلے جانا تھا۔ 
کتنا درد تھا وہاں۔
 موت کو سامنے دیکھ کر قطرہ قطرہ مرتے رہنا۔
آج عثمان چپ تھا کوئی بات نہیں کی اسنے منت نہیں کی لڑکی کی۔ 
آج لڑکی عثمان کو جھکے سر کے ساتھ دیکھ رہی تھی۔ 
اسکی حالت کوئی دیکھتا تو آنسو کا ایک قطرہ لازمی بہ جاتا بے اختیار۔ 
آج اس لڑکی نے ایک فیصلہ کیا تھا انکو دیکھ کر پھر چلی گی۔ 
دو دن بھی گزر چکے تھے۔
 اب وہ دونوں منتظر تھے اپنی باری کے۔
ایک بندہ آیا۔ کچھ دن آرام کرو اب تم لوگ۔
 ہم نے کچھ نئے لوگ پکڑے ہیں صحت مند ہیں۔ 
انسے پیٹ بھریں گے۔
 پھر تم لوگوں کی باری اے گی۔ وہ چلا گیا۔
 کھانا آیا۔ یہ کیا اتنے بڑے پتے۔ ان میں کھانا ہے۔ وہ دونوں دیکھ رہے تھے۔
 تین پتے تھے۔ ایک پتے کو کھولا اس میں گرم گرم مچھلی تھی تلی ہوئی۔
 دوسرا پتا کھولا اس میں سلاد تھا آخری تیسرا پتا کھولا بھونا ہوا گوشت کا پیس تھا۔
 جب غور سے دیکھا وہ تو انسانی بازو تھا پنجے کے ساتھ۔
 نجم چیخ مار کے اٹھ کھڑا ہوا۔ عثمان وہ وہ۔ 
دونوں ساکن تھے۔ وہ بازو تازہ بھونا ہوا تھا۔
 اوپر سے پکا ہوا تھا اندر سے لال سا نظر آ رہا تھا۔ 
عثمان مجہے ایسے نہیں مرنا عثمان نہیں۔ نجم عثمان کے گلے لگ کر رویے جا رہا تھا۔
وہ لڑکی ان کے پاس آیی آدھی رات کو۔ 
کل ہم تینوں یہاں سے بھاگیں گے۔
 تیار رہنا اور میرے پیچھے رہنا۔ 
اگر پکڑے گئے تو بچ نہیں سکیں گے۔
 آخری موقع ہے تم لوگوں کے ساتھ میں پکڑی گئی تو میرا بھی تم لوگوں جیسا حال ہوگا۔ 
 باقی باتیں بعد میں۔ وہ چلی گئی۔
 عثمان خوش تھا۔
 وہ دونوں اپنے گھر والوں کو یاد کر رہے تھے اور سوچ رہے تھے کیا واقعی ہم یہاں سے نکل سکیں گے اور اپنے گھروں میں جا کر اپنوں سے مل سکیں گے۔
 وہ سوچ رہے تھے پر ایک پریشانی بھی تھی ان کے دل میں خوشی اور امید کے ساتھ۔
دن گزر رہا تھا انکو رات کو بھاگنا تھا اور گھبرا بھی رہے تھے۔
 ایک ایک منٹ ان کے گلے کو سوکھا رہا تھا۔
 کیا ہوگا آگے کیا نہیں۔ انکو پتا لگ گیا تو ۔۔۔۔آگے انکا دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا۔
 یہ تو پورا ایک قبیلہ تھا۔ 
اور یہ تین دو وہ خود اور تیسری وہ لڑکی۔
 وہ ڈر بھی رہے تھے کہ اگر اسنے انکا ساتھ نہ دیا تو پھر کیا ہوگا۔ آخر میں انہوں نے ٹھنڈی سانس بھر کر معامله خدا پے چھوڑ دیا تھا۔
 اب بس انکو انتظار تھا لڑکی کا۔

   0
0 Comments